#قسط نمبر 1 *#اسے_ٹوٹ_کر_چاہا_ہم_نے *
#قسط نمبر 1
*#اسے_ٹوٹ_کر_چاہا_ہم_نے *
خداحافظ تک نہیں کہا جاتے جاتے….” غصے کی چنگاریاں اس کے تن من کو جھلسا رہی تھیں۔ کھڑکی کے پٹ کو ناگواری سے دھکیلتے ہوئے اس نے نیچے جھانکا تو ہر سو رگ رگ میں اترتا ایک عجیب سناٹا اس کا منتظر تھا۔
بھلا اب ہر طرف یہ خاموشی کیوں ہے….؟ اس نے تو ایسا ہی کچھ کرنا تھا۔ پتا نہیں وہ اس سے خفا تھا یا خود سے۔ اسے ہر چیز سے بیزاری سی ہو رہی تھی۔ اس کا دل انجانے میں یہ چاہ رہا تھا کہ کوئی معجزہ ہو اور وہ ایک بار پھر ہنستی مسکراتی اس کے سامنے ہو‘ اور اپنے مخصوص انداز میں اسے ڈانٹ کر کہے۔
ویر ی بیڈ میثم عباس کاظمی! خود سے بڑوں سے فلرٹ نہیں کرتے،” آپ سے ایک برس تین ماہ بڑی ہوں میں‘ مہربانی کر کے یاد رکھا کریں۔” ایساکہتے ہوئے اس کا لہجہ کس قدر حلاوت سے بھرا جاتا تھا جیسے کوئی بزرگ کسی “نادان بچے” کو نرمی سے کسی چھوٹی سی خطا پر ڈانٹے۔ اس کے ڈانٹنے کے انداز کو یاد کر کے وہ اس قدر ٹینشن میں بھی مسکرا دیا تھا پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا بیڈ کے قریب چلا آیا۔” سائڈ ٹیبل پر رکھی اس کی تصویر اٹھا کر وہ چند لمحے اسے غصیلی نظروں سے گھورتا رہا پھر اس کے ہونٹ میکانکی انداز میں ہلنے لگے۔
"مہربانی کر کے آپ بھی یاد رکھیں زرگل خاکوانی! کہ محبت ماہ و سال کے حساب سے ماور شے ہے‘ آپ آخر اس کمپلیکس کا شکار کیوں ہیں….؟ مجھے تو آپ سے ایک برس تین ماہ چھوٹا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹھیک ہے خود سے بڑوں سے فلرٹ نہیں کرنا چاہئے‘ اسی لئے تو میں آپ سے محبت کرنے لگا ہوں‘ د نو ں مہینوں اور برسوں کا شمار کئے بنا۔” اسی کے انداز میں کہتے کہتے جانے اسے کیوں وہم سا ہوا کہ اس کی گندمی رنگت میں شفق رنگ گھلنے لگے تھے۔ اور گھنگور گھٹا کی مانند اس کی گھنی سیاہ پلکیں مارے حجاب کے اس کی ساحر سیاہ آنکھوں پر جھکتی چلی گئی تھیں۔
“میں بھی ناں! یہ تو اس کی تصویر ہے۔” اس نے سرجھٹک کر خود کو یاد دلانا چاہا لیکن دل سے اک شور اٹھا تھا کہ جب جب اس کے ہونٹوں نے یہ الفاظ ادا کئے تب تب زرگل خاکوانی اپنے دل کے تقاضوں سے بے بس ہوئی تھی اور اسے اپنے دل کی گواہی پر پورا بھروسا تھا۔
میں میثم عباس کاظمی ہوں زر‘ کوئی ضدی یا ناسمجھ بچہ نہیں۔” تم میری کوئی بے وقوفانہ ضد نہیں ہو‘ تم میری پہلی اور آخر ی چاہت ہو‘ اور تم جتنا بھی بھاگ لو‘ آخر تمہیں اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ اس ایک برس اور تین ماہ سے ماورا ہو کر تم نے بھی ہر لمحہ صرف مجھے ہی چاہا ہے‘ اور یہ بھی یاد رکھو زبیر عباس کاظمی کی طرح میں اپنا حق چھوڑنے والا بھی نہیں کہ….
"میثم! تم اب تک یہاں ہو؟” پلوشہ بھابی کی آواز پر وہ چونک کر مڑا۔”
ہوں‘ تو زرگل سے باتیں ہو رہی تھیں۔ چلو وہ نہ سہی اس کی تصویر ہی سہی۔ پلوشہ بھابی نے شرارت سے چھیڑا لیکن وہ پہلے ہی بری طرح چڑ چکا تھا اس نے پٹخنے والے اسٹائل میں فریم واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"اتنا غصہ بھی اچھا نہیں د یور جی! ایسی ظالم‘ احمق لڑکی کے لئے خود کو مت جلاﺅ”‘” جہاں تک میں اسے سمجھ پائی ہوں میثم! وہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کیا کر رہی ہے‘ اور اسے کیا کرنا چاہئے”۔
پلیز بھابی!” اس وقت میں اس کے حق میں ایک لفظ بھی سننے کے موڈ میں نہیںہوں وہ چالاک لڑکی، بھابی کیا حق تھا اسے یہ سب کرنے کا، مدرٹریسا بننے چلی ہیں محترمہ، دوسروں کے گناہ دھوئیں گی اپنے خون سے۔ بہت سہے ہیں میں نے اس کے لاڈ، اب میں اسے بتاﺅ ں گا حتمی فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے، یوں چوروں کی طرح بھاگ کر اس نے کون سا جھنڈا گاڑا ہے، مجھے بھی تو بتائے؟” وہ اس پر بری طرح بگڑا ہوا تھا۔ پلوشہ بھابی نے ایک نظر غصے سے دہکتے اس کے سرخ و سفید چہرے کو دیکھا اور پھر زرگل کی تصویر کی طرف دیکھ کر مسکرا دیں۔
"وہ جو جھنڈا گاڑ گئی ہے، اس کا اثر تم صبح اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، فی الحال تو میں تمہیں یہ سب البم دینے آئی تھی جن میں تم نے اپنی فوٹو گرافی کے سارے ہنر زرگل پر آزمائے ہیں۔ یہ وہ مجھے لوٹا گئی تھی۔” پلوشہ بھابی نے تین چار البم اس کی طرف بڑھائے تو وہ ششدر سا رہ گیا۔
اس کا مطلب ہے وہ تو مجھ سے اپنا ہر رشتہ توڑ گئی ہے۔” اس کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی”۔ پلوشہ بھابی نے اس کے دکھ کو اپنے دل میں اترتا محسوس کیا لیکن وہ جانتی تھی اس وقت کوئی بھی ہمدردی اس کے کرب میں اضافہ ہی کرے گی‘ اس لئے البم اسے پکڑا کر باہر چلی گئیں
یہ تو تم نے بڑا ہی گہرا وار کیا ہے زر!” البم ہاتھ میں پکڑ تے ہوئے جیسے اس کی سبھی ہمتیں جواب دے گئی تھیں۔” اپنے بے جان وجود کے ساتھ وہ بیڈ پر گر سا گیا۔ اس کے کپکپاتے ہاتھوں سے البمز چھوٹ گئے اور ان میں سے کئی تصویریں نکل کر اس کے بے لگام خیالوں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئیں۔ ان تصویروں سے جھانکتے ہنستے،گاتے لمحے اس کی آنکھوں میں مرچیں بھرنے لگے اس نے سر جھٹک کر خود کو اس کے تصور سے آزاد کرنے کی کوشش کرنا چاہی لیکن
٭٭٭
ہونٹوں سے چھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاﺅ میت میرے….
اوہ، گاڈ ہو گئی صبح تمہاری۔ فارگاڈ سیک میثم یار!” یہی ایک گیت کیوں گاتے رہتے ہو تم۔ کہیں تمہارے گلے کا کیسٹ اسی پر اٹک تو نہیں گیا۔” زہیر چاچو کے ٹوکنے پر اس کی گنگناہٹ کو بریک لگ گئی۔
زہیر چاچو!” اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی طعنہ بازی میرا کچھ بگاڑ پائے گی تو بھلادیں یہ بات، مجھے پتا ہے آپ اندر ہی اندر ایسے طعنے مار کر کیا کوشش کرتے ہیں، یہی ناں کہ آپ مجھے بدل کر رکھ دیں گے، ویری فنی ، آج میں آپ کو صاف بتا رہا ہوں، میں نہ تو اپنا گیت بدل سکتا ہوں نہ اپنی فوٹو گرافی کا شوق چھوڑ سکتا ہوں، اور نہ ہی خواہ مخواہ کی سنجید گی کا لبادہ اوڑھ سکتا ہوں، میں، میں ہوں، اور ہمیشہ میں ہی رہنا چاہتا ہوں….کہ”….
شٹ اپ میثم! میں نے تو بس ایک بات کی تھی تم نے جواباً ایک طویل تقریر سنا دی، ویسے مجھے تو تم ایسے ہی بہت پسند ہو، اپنی سبھی لاپرواہیوں کے ساتھ بھی۔ لیکن تمہارے بابا کو تم سے کافی پرابلم ہیں‘ انہوں نے تمہیں یہاں بھی اسی لئے بھیجا تھا کہ گھر کے "سکون سے دور رہ کر تم کچھ تو سدھر جاﺅ لیکن تم”۔
"واہ، بابا کا جواب نہیں، بھلا گھر کا سکون چھوڑ کر آپ سدھر گئے تھے جو مجھے بھی”….
"اس کی بات کاٹ کر وہ اس قدر سختی سے بولے تھے کی میثم کانپ سا گیا۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے ان کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دےکھا تو اپنے الفاظ کی بدصورتی کا احساس ہوا”۔
سوری زہیر چاچو! میں”….”
"ٹھیک کہتے ہو تم” تم سدھر سکتے ہی نہیں ہو۔” اوکے میں چلوں۔”
میثم کے لئے ان کا اس قدر نارمل انداز میں بات کرنا نیا نہیں تھا اور نہ ہی آج اس سے کوئی پہلی بار بے وقوفی ہوئی تھی وہ جب سےیہاں آیا تھا کئی بار ان کی زندگی کے تکلیف دہ پہلو کو یوں ہی بے حسی سے چھیڑ بیٹھتا تھا، اور وہ یوں ہی ایک لمحے کو بے بس ضرور ہوتے تھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود پر قابو پا کر اسے خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑتے تھے۔
"پلیز زہیر چاچو، مجھے خود ہی پتا نہیں چلتا کہ کیا بول جاتا ہوں آپ سے”۔
"اسٹاپ اپ میثم، ہمارے ریلیشن میں اس قدر فارمیلیٹیز نہیں ہونی چاہئے، ایک وقت آئے گا جب ہم اس مسئلے کو ڈسکس کریں گے اور پھر میں تمہارے سبھی سوالوں کا جواب بھی دوں گا، لیکن ابھی تم اس احساس سے ہی بے خبر ہو، جسے محبت کہتے ہیں ، اور جب تم اس احساس سے آشنا ہو جاﺅ گے تو محبت اور مصلحت کے فرق کو بھی جان جاﺅ گے۔ پھر شاید تمہیں مجھ سے کوئی شکایت بھی نہ رہے۔” اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں انہوں نے پہلی بار اس موضوع پر اس سے قدرے تفصیل سے بات کی تھی لیکن اس کی سمجھ میں بہت سی باتیں نہیں آئی تھیں۔ وہ تو بس خاموش نظروں سے انہیںخود سے دور ہوتا دیکھ رہا تھا وہ ہمیشہ سے ان کی شاندار پرسنالٹی سے بری طرح متاثر تھا اور شاید بابا اور امی سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا، ان سے ۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک راز کی طرح اس کے سامنے رہے تھے بظاہر ان کا رویہ اس قدر دوستانہ تھا کہ میثم ان سے اپنا کوئی راز کبھی نہ چھپا سکا تھا لیکن جہاں بات ان کی ذات پر آتی وہ قطعی جانبدارانہ رویہ اپنا لیتے تھے۔ انہوں نے آج تک ایک ایک لفظ بھی اپنے ذاتی دکھ کے بارے میں نہیں کہا تھا۔ اور اس کی وجہ آج تک اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
٭٭٭
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں ہے
اوہو، تو یہ بات ہے”….”
واٹ…. کیا بات ہے….؟” اس کے شرارتی لہجے پر وہ خفگی سے گھورنے لگیں”۔
"یہی آپ کا شعر، بہت ہی گہرے معنی رکھتا ہے”۔” جس جذبے سے آپ نے سنایا ہے شاید اتنی شدت کا احساس تو اس شاعر نے بھی محسوس نہ کیا ہوگا جس کا یہ شعر ہے”۔
اف کس قدر خوبصورت اردو بولتے ہو تم۔ اب تو کافی دیر سے زہیر کے لہجے میں بھی ملاوٹ سی محسوس ہونے لگی ہے انگلش فضاﺅں کی۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو وہ بھی تمہارے طرح گہرے لہجے میں اردو کے موٹے موٹے الفاظ بولتا تھا۔
"ونڈر فل، آپ بھی خوبصورتی سے ٹال گئی ہیں مجھے، آپ دونوں ہی بہت بڑے بے ایمان ہیں، دوستی کی آڑ میں آپ دونوں مجھ سے بزرگی کا رشتہ ہی بنائے ہوئے ہیں۔” وہ چڑ کر بولا تو وہ اپنی مترنم ہنسی کا جادو بکھیرنے لگیں۔
"ایک بات کہوں تحریم! آپ کی ہنسی اس قدر دلکش ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کاش میں زہیر چاچو کی جگہ ہوتا”۔
ہائیں، وہ کیوں بھلا؟” وہ اپنی نیلی آنکھوں میں حیرت کا جہاں سمیٹتے اس لمحے اسے بڑی ہی دلکش لگیں”۔
"چھوڑئیے آپ ناراض ہو جائیں گی۔” کافی کا مگ سینٹرل ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اپنی سوچ پر مسکرا بھی رہا تھا۔
"میثم! یہ جو تمہاری مسکراہٹ ہے ناں، بے حساب غصہ دلاتی ہے مجھے یا تو بات کیا نہ کرو یا پوری کرو”۔
"میں یہ کہہ رہا تھا اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو وقت ضائع کئے بنا آپ کو پرپوز کر دیتا۔” ان کی طرف دیکھے بغیر وہ جھینپتے ہوئے گویا ہوا لیکن اس کا فقرہ مکمل ہوتے ہی وہ اتنے زور زور سے ہنسنے لگیں کہ میثم حیرت زدہ رہ گیا وہ تو اس بات پر اچھی خاصی کھنچائی کی توقع کر رہا تھا اور تحریم ہنسے جا رہی تھیں۔
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں تحریم؟”
ہنستی ہوئی وہ اٹھیں اور فریج میں سے پانی کی بوتل نکال کر بڑے بڑے گھونٹ لینے لگیں اور اس دوران ان کی ہنسی یوں تھم گئی جیسے ان کے اندر ہنسنے کی ہمت ہی نہ رہی ہو۔ میثم حیران سا ان کے چہرے کے تاثرات دیکھے جا رہا تھا پھر جب وہ دوبارہ اس کے سامنے آکر بیٹھیں تو میثم کو یہ دیکھ کر دھچکا سا لگا کہ ان کا سرخ و سفید چہرہ اس لمحے بری طرح زرد ہو رہا تھا۔
تو کب جا رہے ہو تم….؟) اپنی گہری نیلی آنکھوں میں ویرانیاں لئے وہ ایسے بولیں جیسے ابھی چند لمحے پہلے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن میثم اب اس راز کو کھوجتا کھوجتا تھک چکا تھا۔ اسی لئے فیصلہ کن انداز میں گویا ہوا۔
"میں کل چلا جاﺅں گا تحریم! اور یہ میرا خود سے وعدہ ہے کہ پھر کبھی میں اس ملک میں واپس نہیں آﺅں گا حالانکہ میں زہیر چاچو سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں، اور ان کے توسط سے مجھے آپ جیسی پیاری دوست ملی ہے اور آپ میرے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں اس کے لئے شاید مجھے کبھی الفاظ نہ ملیں، لیکن سچ مانئے، ان دو سالوں میں، میں آپ دونوں سے تنگ آگیا ہوں، زہیر چاچو کے گھر کی ویرانی سے مجھے خوف آتا ہے، میں آپ کی ان حسین نیلی آنکھوں کے درد سے دور بھاگ جانا چاہتا ہوں، بس جانے سے پہلے مجھے ایک بات بتائیے تحریم کیا محبت کا دوسرا نام اذیت ہے؟” اس کے الفاظ نے انہیں پل بھر کے لئے گنگ سا کر دیا۔ آج انہیں احساس ہوا کہ وہ جتنا لاپروا نظر آتا تھا دراصل اتنا ہی حساس تھا۔ اور انہیں لگا جیسے ان کی ہاں یا ناں پر اس کھلنڈرے سے لڑکے کی سانس اٹک گئی تھی۔
"نہیں میثم! محبت کا کوئی دوسرا نام نہیں، محبت ہر روپ میں بس محبت ہے، اذیت، درد، دکھ ، تو ہم بنا دیتے ہیں اسے۔ زہیر عباس کاظمی، وہ شخص ہے جس نے اپنے ساتھ سبھی چاہنے والوں کو سزا دے رکھی ہے، پتا نہیں کس جرم کی؟” وہ ساری عمر اس دکھ میں مبتلا رہا ہے کہ شاید وہ اظہار کر دیتا تو اس کی محبت سے مل جاتی، لیکن اس بات کا ذرا بھی آئیڈیا نہیں اسے کہ محبت نے صورت ضرور بدلی ہے لیکن وہ آج بھی اس سے روٹھی نہیں ہے، میں پچھلے بیس برس سے اس شخص کی محبت کا انتظار کر رہی ہوں، اور یہ انتظار صرف محبت ہے اذیت نہیں، میں اس کا آخری سانس تک انتظار کروں گی اور تم دیکھنا میثم، آخر میں، میں جیت جاﺅں گی، کیونکہ میرا حوصلہ کبھی ایک پل کو بھی نہیں ٹوٹا، کیونکہ میرے سبھی رشتے میرے ساتھ ہیں، میں نے زہیر کی طرح خود کو کبھی محبت کے حصار سے دور نہیں کیا، تو پھر جسے میں نے چاہا وہ کب تک بھاگ سکتا ہے مجھ سے؟” نیلی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے وہ کس قدر یقین سے کہہ رہی تھیں۔
"اور آج کے بعد مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہوگا…. کیونکہ میں آپ کو آپ کے نام سے نہیں ایک پیارے سے رشتے سے پکارنا چاہتا ہوں۔” اس کی بات پروہ دھیرے سے مسکرائیں اور پیار سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے ڈائریکٹ اس کی روشن ڈارک براﺅن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
"بے ایمان، مجھ سے تو اگلوا لیا ہے سب، ان چراغوں نے کہاں کہاں روشنی کی کچھ ہمیں بھی تو بتاﺅ؟”
"توبہ آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں؟ میں ایک شریف بچہ ہوں”۔ ان کے معنی خیز سوال پر وہ اپنی جون میں واپس آیا۔
"ہاں کیوں نہیں، یہ تمہاری چرب زبانی، ڈریسنگ اور ایم بی اے کے ساتھ خواہ مخواہ کا فوٹو گرافی کا شوق آج کل کی لڑکیاں تو ایسی ہی باتوں کی دیوانی ہوتی ہیں”۔
"لیکن مجھے کوئی دیوانی نہیں، ایک سیانی چاہئے تحریم، یہ سچ ہے میں کوئی بہت زیادہ شریف نہیں ہوں لیکن محبت میں، زندگی میں ایک بارویسی شدید محبت کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں جیسی زہیر چاچو اور آپ نے کی۔” تحریم اس کے لہجے سے چھلکتی حسرت پر شفقت سے مسکرادیں۔
"نادان ہونا، ایک بار شدید محبت مذاق نہیںہوتی، جب یہ حماقت کر بیٹھو گے تو پھر دوسری بار کا تصور بھی نہ کر پاﺅگے۔”
"تحریم! میں خودکو ثابت کر کے دکھاﺅں گا۔ میں نہ تو زہیر چاچو کی طرح اپنا حق کسی کو دوں گا، اور نہ ہی آپ کی طرح تمام عمر انتظار میں خوشی کا متلاشی رہوں گا، مجھے دوسری بار کی خواہش ہے بھی نہیں۔ لیکن اس محبت کے ایک اکلوتے چانس کو میں کبھی حسرت نہیں بننے دوں گا، اور یہ میرا وعدہ ہے آپ سے….” وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولا تو ا سکی روشن ڈارک براﺅن آنکھوں سے چھلکتے اعتماد نے انہیں کچھ بھی کہنے کے قابل نہ چھوڑا۔ انہوں نے محبت سے ماتھے پر لاپرواہی سے بکھرے اس کے بالوں کو سمیٹا اور اس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے ڈھیروں دعائیں ان کے دل سے نکلی تھیں جو سبھی اس پگلے سے لڑکے کی خوشیوں کے لئے تھیں۔
جاری ہے😌
*#اسے_ٹوٹ_کر_چاہا_ہم_نے *
خداحافظ تک نہیں کہا جاتے جاتے….” غصے کی چنگاریاں اس کے تن من کو جھلسا رہی تھیں۔ کھڑکی کے پٹ کو ناگواری سے دھکیلتے ہوئے اس نے نیچے جھانکا تو ہر سو رگ رگ میں اترتا ایک عجیب سناٹا اس کا منتظر تھا۔
بھلا اب ہر طرف یہ خاموشی کیوں ہے….؟ اس نے تو ایسا ہی کچھ کرنا تھا۔ پتا نہیں وہ اس سے خفا تھا یا خود سے۔ اسے ہر چیز سے بیزاری سی ہو رہی تھی۔ اس کا دل انجانے میں یہ چاہ رہا تھا کہ کوئی معجزہ ہو اور وہ ایک بار پھر ہنستی مسکراتی اس کے سامنے ہو‘ اور اپنے مخصوص انداز میں اسے ڈانٹ کر کہے۔
ویر ی بیڈ میثم عباس کاظمی! خود سے بڑوں سے فلرٹ نہیں کرتے،” آپ سے ایک برس تین ماہ بڑی ہوں میں‘ مہربانی کر کے یاد رکھا کریں۔” ایساکہتے ہوئے اس کا لہجہ کس قدر حلاوت سے بھرا جاتا تھا جیسے کوئی بزرگ کسی “نادان بچے” کو نرمی سے کسی چھوٹی سی خطا پر ڈانٹے۔ اس کے ڈانٹنے کے انداز کو یاد کر کے وہ اس قدر ٹینشن میں بھی مسکرا دیا تھا پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا بیڈ کے قریب چلا آیا۔” سائڈ ٹیبل پر رکھی اس کی تصویر اٹھا کر وہ چند لمحے اسے غصیلی نظروں سے گھورتا رہا پھر اس کے ہونٹ میکانکی انداز میں ہلنے لگے۔
"مہربانی کر کے آپ بھی یاد رکھیں زرگل خاکوانی! کہ محبت ماہ و سال کے حساب سے ماور شے ہے‘ آپ آخر اس کمپلیکس کا شکار کیوں ہیں….؟ مجھے تو آپ سے ایک برس تین ماہ چھوٹا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹھیک ہے خود سے بڑوں سے فلرٹ نہیں کرنا چاہئے‘ اسی لئے تو میں آپ سے محبت کرنے لگا ہوں‘ د نو ں مہینوں اور برسوں کا شمار کئے بنا۔” اسی کے انداز میں کہتے کہتے جانے اسے کیوں وہم سا ہوا کہ اس کی گندمی رنگت میں شفق رنگ گھلنے لگے تھے۔ اور گھنگور گھٹا کی مانند اس کی گھنی سیاہ پلکیں مارے حجاب کے اس کی ساحر سیاہ آنکھوں پر جھکتی چلی گئی تھیں۔
“میں بھی ناں! یہ تو اس کی تصویر ہے۔” اس نے سرجھٹک کر خود کو یاد دلانا چاہا لیکن دل سے اک شور اٹھا تھا کہ جب جب اس کے ہونٹوں نے یہ الفاظ ادا کئے تب تب زرگل خاکوانی اپنے دل کے تقاضوں سے بے بس ہوئی تھی اور اسے اپنے دل کی گواہی پر پورا بھروسا تھا۔
میں میثم عباس کاظمی ہوں زر‘ کوئی ضدی یا ناسمجھ بچہ نہیں۔” تم میری کوئی بے وقوفانہ ضد نہیں ہو‘ تم میری پہلی اور آخر ی چاہت ہو‘ اور تم جتنا بھی بھاگ لو‘ آخر تمہیں اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ اس ایک برس اور تین ماہ سے ماورا ہو کر تم نے بھی ہر لمحہ صرف مجھے ہی چاہا ہے‘ اور یہ بھی یاد رکھو زبیر عباس کاظمی کی طرح میں اپنا حق چھوڑنے والا بھی نہیں کہ….
"میثم! تم اب تک یہاں ہو؟” پلوشہ بھابی کی آواز پر وہ چونک کر مڑا۔”
ہوں‘ تو زرگل سے باتیں ہو رہی تھیں۔ چلو وہ نہ سہی اس کی تصویر ہی سہی۔ پلوشہ بھابی نے شرارت سے چھیڑا لیکن وہ پہلے ہی بری طرح چڑ چکا تھا اس نے پٹخنے والے اسٹائل میں فریم واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"اتنا غصہ بھی اچھا نہیں د یور جی! ایسی ظالم‘ احمق لڑکی کے لئے خود کو مت جلاﺅ”‘” جہاں تک میں اسے سمجھ پائی ہوں میثم! وہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کیا کر رہی ہے‘ اور اسے کیا کرنا چاہئے”۔
پلیز بھابی!” اس وقت میں اس کے حق میں ایک لفظ بھی سننے کے موڈ میں نہیںہوں وہ چالاک لڑکی، بھابی کیا حق تھا اسے یہ سب کرنے کا، مدرٹریسا بننے چلی ہیں محترمہ، دوسروں کے گناہ دھوئیں گی اپنے خون سے۔ بہت سہے ہیں میں نے اس کے لاڈ، اب میں اسے بتاﺅ ں گا حتمی فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے، یوں چوروں کی طرح بھاگ کر اس نے کون سا جھنڈا گاڑا ہے، مجھے بھی تو بتائے؟” وہ اس پر بری طرح بگڑا ہوا تھا۔ پلوشہ بھابی نے ایک نظر غصے سے دہکتے اس کے سرخ و سفید چہرے کو دیکھا اور پھر زرگل کی تصویر کی طرف دیکھ کر مسکرا دیں۔
"وہ جو جھنڈا گاڑ گئی ہے، اس کا اثر تم صبح اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، فی الحال تو میں تمہیں یہ سب البم دینے آئی تھی جن میں تم نے اپنی فوٹو گرافی کے سارے ہنر زرگل پر آزمائے ہیں۔ یہ وہ مجھے لوٹا گئی تھی۔” پلوشہ بھابی نے تین چار البم اس کی طرف بڑھائے تو وہ ششدر سا رہ گیا۔
اس کا مطلب ہے وہ تو مجھ سے اپنا ہر رشتہ توڑ گئی ہے۔” اس کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی”۔ پلوشہ بھابی نے اس کے دکھ کو اپنے دل میں اترتا محسوس کیا لیکن وہ جانتی تھی اس وقت کوئی بھی ہمدردی اس کے کرب میں اضافہ ہی کرے گی‘ اس لئے البم اسے پکڑا کر باہر چلی گئیں
یہ تو تم نے بڑا ہی گہرا وار کیا ہے زر!” البم ہاتھ میں پکڑ تے ہوئے جیسے اس کی سبھی ہمتیں جواب دے گئی تھیں۔” اپنے بے جان وجود کے ساتھ وہ بیڈ پر گر سا گیا۔ اس کے کپکپاتے ہاتھوں سے البمز چھوٹ گئے اور ان میں سے کئی تصویریں نکل کر اس کے بے لگام خیالوں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئیں۔ ان تصویروں سے جھانکتے ہنستے،گاتے لمحے اس کی آنکھوں میں مرچیں بھرنے لگے اس نے سر جھٹک کر خود کو اس کے تصور سے آزاد کرنے کی کوشش کرنا چاہی لیکن
٭٭٭
ہونٹوں سے چھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاﺅ میت میرے….
اوہ، گاڈ ہو گئی صبح تمہاری۔ فارگاڈ سیک میثم یار!” یہی ایک گیت کیوں گاتے رہتے ہو تم۔ کہیں تمہارے گلے کا کیسٹ اسی پر اٹک تو نہیں گیا۔” زہیر چاچو کے ٹوکنے پر اس کی گنگناہٹ کو بریک لگ گئی۔
زہیر چاچو!” اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی طعنہ بازی میرا کچھ بگاڑ پائے گی تو بھلادیں یہ بات، مجھے پتا ہے آپ اندر ہی اندر ایسے طعنے مار کر کیا کوشش کرتے ہیں، یہی ناں کہ آپ مجھے بدل کر رکھ دیں گے، ویری فنی ، آج میں آپ کو صاف بتا رہا ہوں، میں نہ تو اپنا گیت بدل سکتا ہوں نہ اپنی فوٹو گرافی کا شوق چھوڑ سکتا ہوں، اور نہ ہی خواہ مخواہ کی سنجید گی کا لبادہ اوڑھ سکتا ہوں، میں، میں ہوں، اور ہمیشہ میں ہی رہنا چاہتا ہوں….کہ”….
شٹ اپ میثم! میں نے تو بس ایک بات کی تھی تم نے جواباً ایک طویل تقریر سنا دی، ویسے مجھے تو تم ایسے ہی بہت پسند ہو، اپنی سبھی لاپرواہیوں کے ساتھ بھی۔ لیکن تمہارے بابا کو تم سے کافی پرابلم ہیں‘ انہوں نے تمہیں یہاں بھی اسی لئے بھیجا تھا کہ گھر کے "سکون سے دور رہ کر تم کچھ تو سدھر جاﺅ لیکن تم”۔
"واہ، بابا کا جواب نہیں، بھلا گھر کا سکون چھوڑ کر آپ سدھر گئے تھے جو مجھے بھی”….
"اس کی بات کاٹ کر وہ اس قدر سختی سے بولے تھے کی میثم کانپ سا گیا۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے ان کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دےکھا تو اپنے الفاظ کی بدصورتی کا احساس ہوا”۔
سوری زہیر چاچو! میں”….”
"ٹھیک کہتے ہو تم” تم سدھر سکتے ہی نہیں ہو۔” اوکے میں چلوں۔”
میثم کے لئے ان کا اس قدر نارمل انداز میں بات کرنا نیا نہیں تھا اور نہ ہی آج اس سے کوئی پہلی بار بے وقوفی ہوئی تھی وہ جب سےیہاں آیا تھا کئی بار ان کی زندگی کے تکلیف دہ پہلو کو یوں ہی بے حسی سے چھیڑ بیٹھتا تھا، اور وہ یوں ہی ایک لمحے کو بے بس ضرور ہوتے تھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود پر قابو پا کر اسے خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑتے تھے۔
"پلیز زہیر چاچو، مجھے خود ہی پتا نہیں چلتا کہ کیا بول جاتا ہوں آپ سے”۔
"اسٹاپ اپ میثم، ہمارے ریلیشن میں اس قدر فارمیلیٹیز نہیں ہونی چاہئے، ایک وقت آئے گا جب ہم اس مسئلے کو ڈسکس کریں گے اور پھر میں تمہارے سبھی سوالوں کا جواب بھی دوں گا، لیکن ابھی تم اس احساس سے ہی بے خبر ہو، جسے محبت کہتے ہیں ، اور جب تم اس احساس سے آشنا ہو جاﺅ گے تو محبت اور مصلحت کے فرق کو بھی جان جاﺅ گے۔ پھر شاید تمہیں مجھ سے کوئی شکایت بھی نہ رہے۔” اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں انہوں نے پہلی بار اس موضوع پر اس سے قدرے تفصیل سے بات کی تھی لیکن اس کی سمجھ میں بہت سی باتیں نہیں آئی تھیں۔ وہ تو بس خاموش نظروں سے انہیںخود سے دور ہوتا دیکھ رہا تھا وہ ہمیشہ سے ان کی شاندار پرسنالٹی سے بری طرح متاثر تھا اور شاید بابا اور امی سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا، ان سے ۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک راز کی طرح اس کے سامنے رہے تھے بظاہر ان کا رویہ اس قدر دوستانہ تھا کہ میثم ان سے اپنا کوئی راز کبھی نہ چھپا سکا تھا لیکن جہاں بات ان کی ذات پر آتی وہ قطعی جانبدارانہ رویہ اپنا لیتے تھے۔ انہوں نے آج تک ایک ایک لفظ بھی اپنے ذاتی دکھ کے بارے میں نہیں کہا تھا۔ اور اس کی وجہ آج تک اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
٭٭٭
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں ہے
اوہو، تو یہ بات ہے”….”
واٹ…. کیا بات ہے….؟” اس کے شرارتی لہجے پر وہ خفگی سے گھورنے لگیں”۔
"یہی آپ کا شعر، بہت ہی گہرے معنی رکھتا ہے”۔” جس جذبے سے آپ نے سنایا ہے شاید اتنی شدت کا احساس تو اس شاعر نے بھی محسوس نہ کیا ہوگا جس کا یہ شعر ہے”۔
اف کس قدر خوبصورت اردو بولتے ہو تم۔ اب تو کافی دیر سے زہیر کے لہجے میں بھی ملاوٹ سی محسوس ہونے لگی ہے انگلش فضاﺅں کی۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو وہ بھی تمہارے طرح گہرے لہجے میں اردو کے موٹے موٹے الفاظ بولتا تھا۔
"ونڈر فل، آپ بھی خوبصورتی سے ٹال گئی ہیں مجھے، آپ دونوں ہی بہت بڑے بے ایمان ہیں، دوستی کی آڑ میں آپ دونوں مجھ سے بزرگی کا رشتہ ہی بنائے ہوئے ہیں۔” وہ چڑ کر بولا تو وہ اپنی مترنم ہنسی کا جادو بکھیرنے لگیں۔
"ایک بات کہوں تحریم! آپ کی ہنسی اس قدر دلکش ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کاش میں زہیر چاچو کی جگہ ہوتا”۔
ہائیں، وہ کیوں بھلا؟” وہ اپنی نیلی آنکھوں میں حیرت کا جہاں سمیٹتے اس لمحے اسے بڑی ہی دلکش لگیں”۔
"چھوڑئیے آپ ناراض ہو جائیں گی۔” کافی کا مگ سینٹرل ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اپنی سوچ پر مسکرا بھی رہا تھا۔
"میثم! یہ جو تمہاری مسکراہٹ ہے ناں، بے حساب غصہ دلاتی ہے مجھے یا تو بات کیا نہ کرو یا پوری کرو”۔
"میں یہ کہہ رہا تھا اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو وقت ضائع کئے بنا آپ کو پرپوز کر دیتا۔” ان کی طرف دیکھے بغیر وہ جھینپتے ہوئے گویا ہوا لیکن اس کا فقرہ مکمل ہوتے ہی وہ اتنے زور زور سے ہنسنے لگیں کہ میثم حیرت زدہ رہ گیا وہ تو اس بات پر اچھی خاصی کھنچائی کی توقع کر رہا تھا اور تحریم ہنسے جا رہی تھیں۔
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں تحریم؟”
ہنستی ہوئی وہ اٹھیں اور فریج میں سے پانی کی بوتل نکال کر بڑے بڑے گھونٹ لینے لگیں اور اس دوران ان کی ہنسی یوں تھم گئی جیسے ان کے اندر ہنسنے کی ہمت ہی نہ رہی ہو۔ میثم حیران سا ان کے چہرے کے تاثرات دیکھے جا رہا تھا پھر جب وہ دوبارہ اس کے سامنے آکر بیٹھیں تو میثم کو یہ دیکھ کر دھچکا سا لگا کہ ان کا سرخ و سفید چہرہ اس لمحے بری طرح زرد ہو رہا تھا۔
تو کب جا رہے ہو تم….؟) اپنی گہری نیلی آنکھوں میں ویرانیاں لئے وہ ایسے بولیں جیسے ابھی چند لمحے پہلے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن میثم اب اس راز کو کھوجتا کھوجتا تھک چکا تھا۔ اسی لئے فیصلہ کن انداز میں گویا ہوا۔
"میں کل چلا جاﺅں گا تحریم! اور یہ میرا خود سے وعدہ ہے کہ پھر کبھی میں اس ملک میں واپس نہیں آﺅں گا حالانکہ میں زہیر چاچو سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں، اور ان کے توسط سے مجھے آپ جیسی پیاری دوست ملی ہے اور آپ میرے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں اس کے لئے شاید مجھے کبھی الفاظ نہ ملیں، لیکن سچ مانئے، ان دو سالوں میں، میں آپ دونوں سے تنگ آگیا ہوں، زہیر چاچو کے گھر کی ویرانی سے مجھے خوف آتا ہے، میں آپ کی ان حسین نیلی آنکھوں کے درد سے دور بھاگ جانا چاہتا ہوں، بس جانے سے پہلے مجھے ایک بات بتائیے تحریم کیا محبت کا دوسرا نام اذیت ہے؟” اس کے الفاظ نے انہیں پل بھر کے لئے گنگ سا کر دیا۔ آج انہیں احساس ہوا کہ وہ جتنا لاپروا نظر آتا تھا دراصل اتنا ہی حساس تھا۔ اور انہیں لگا جیسے ان کی ہاں یا ناں پر اس کھلنڈرے سے لڑکے کی سانس اٹک گئی تھی۔
"نہیں میثم! محبت کا کوئی دوسرا نام نہیں، محبت ہر روپ میں بس محبت ہے، اذیت، درد، دکھ ، تو ہم بنا دیتے ہیں اسے۔ زہیر عباس کاظمی، وہ شخص ہے جس نے اپنے ساتھ سبھی چاہنے والوں کو سزا دے رکھی ہے، پتا نہیں کس جرم کی؟” وہ ساری عمر اس دکھ میں مبتلا رہا ہے کہ شاید وہ اظہار کر دیتا تو اس کی محبت سے مل جاتی، لیکن اس بات کا ذرا بھی آئیڈیا نہیں اسے کہ محبت نے صورت ضرور بدلی ہے لیکن وہ آج بھی اس سے روٹھی نہیں ہے، میں پچھلے بیس برس سے اس شخص کی محبت کا انتظار کر رہی ہوں، اور یہ انتظار صرف محبت ہے اذیت نہیں، میں اس کا آخری سانس تک انتظار کروں گی اور تم دیکھنا میثم، آخر میں، میں جیت جاﺅں گی، کیونکہ میرا حوصلہ کبھی ایک پل کو بھی نہیں ٹوٹا، کیونکہ میرے سبھی رشتے میرے ساتھ ہیں، میں نے زہیر کی طرح خود کو کبھی محبت کے حصار سے دور نہیں کیا، تو پھر جسے میں نے چاہا وہ کب تک بھاگ سکتا ہے مجھ سے؟” نیلی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے وہ کس قدر یقین سے کہہ رہی تھیں۔
"اور آج کے بعد مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہوگا…. کیونکہ میں آپ کو آپ کے نام سے نہیں ایک پیارے سے رشتے سے پکارنا چاہتا ہوں۔” اس کی بات پروہ دھیرے سے مسکرائیں اور پیار سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے ڈائریکٹ اس کی روشن ڈارک براﺅن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
"بے ایمان، مجھ سے تو اگلوا لیا ہے سب، ان چراغوں نے کہاں کہاں روشنی کی کچھ ہمیں بھی تو بتاﺅ؟”
"توبہ آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں؟ میں ایک شریف بچہ ہوں”۔ ان کے معنی خیز سوال پر وہ اپنی جون میں واپس آیا۔
"ہاں کیوں نہیں، یہ تمہاری چرب زبانی، ڈریسنگ اور ایم بی اے کے ساتھ خواہ مخواہ کا فوٹو گرافی کا شوق آج کل کی لڑکیاں تو ایسی ہی باتوں کی دیوانی ہوتی ہیں”۔
"لیکن مجھے کوئی دیوانی نہیں، ایک سیانی چاہئے تحریم، یہ سچ ہے میں کوئی بہت زیادہ شریف نہیں ہوں لیکن محبت میں، زندگی میں ایک بارویسی شدید محبت کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں جیسی زہیر چاچو اور آپ نے کی۔” تحریم اس کے لہجے سے چھلکتی حسرت پر شفقت سے مسکرادیں۔
"نادان ہونا، ایک بار شدید محبت مذاق نہیںہوتی، جب یہ حماقت کر بیٹھو گے تو پھر دوسری بار کا تصور بھی نہ کر پاﺅگے۔”
"تحریم! میں خودکو ثابت کر کے دکھاﺅں گا۔ میں نہ تو زہیر چاچو کی طرح اپنا حق کسی کو دوں گا، اور نہ ہی آپ کی طرح تمام عمر انتظار میں خوشی کا متلاشی رہوں گا، مجھے دوسری بار کی خواہش ہے بھی نہیں۔ لیکن اس محبت کے ایک اکلوتے چانس کو میں کبھی حسرت نہیں بننے دوں گا، اور یہ میرا وعدہ ہے آپ سے….” وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولا تو ا سکی روشن ڈارک براﺅن آنکھوں سے چھلکتے اعتماد نے انہیں کچھ بھی کہنے کے قابل نہ چھوڑا۔ انہوں نے محبت سے ماتھے پر لاپرواہی سے بکھرے اس کے بالوں کو سمیٹا اور اس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے ڈھیروں دعائیں ان کے دل سے نکلی تھیں جو سبھی اس پگلے سے لڑکے کی خوشیوں کے لئے تھیں۔
جاری ہے😌
Comments